محدث العصر علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا “اہلحدیث کا صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنھم کے متعلق نظریہ “کے عنوان سے اہلحدیث یوتھ فورس پاکستان کے زیرِ اہتمام ندواتِ علمیہ نشست میں علمی وتحقیقی خطاب

محدث العصر علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ناظم شعبہ طبع و تالیف مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کا “اہلحدیث کا صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنھم کے متعلق نظریہ “کے عنوان سے شعبہ تعلیم و تربیت اہلحدیث یوتھ فورس پاکستان کے زیرِ اہتمام ندواتِ علمیہ نشست میں علمی وتحقیقی خطاب
إِنَّ ٱلْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ، وَنَسْتَعِينُهُ، وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِٱللَّهِ مِن شُرُورِ أَنفُسِنَا، وَمِن سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَن يَهْدِهِ ٱللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَن يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ۔وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ۔ وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَٰنٖ رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ وَأَعَدَّ لَهُمۡ جَنَّـٰتٖ تَجۡرِي تَحۡتَهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدٗاۚ ذَٰلِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ
ٱللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدِ ٱلۡمُخۡتَارِ، وَعَلَىٰ سَيِّدِنَآ أَبِي بَكۡرٍ صَاحِبِ ٱلۡغَارِ، وَعَلَىٰ سَيِّدِنَا عُمَرَ مُمَصِّرِ ٱلۡأَمۡصَارِ، وَعَلَىٰ سَيِّدِنَا عُثۡمَانَ شَهِيدِ ٱلدَّارِ، وَعَلَىٰ عَلِيٍّ قَاتِلِ ٱلۡكُفَّارِ
محترم ومعززعلمائے کرام اور اس تربیتی نشست میں تشریف لانے والے عزیز طلبہ آج کے پروگرام میں ہم نے “اہلحدیث کا صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنھم کے متعلق نظریہ” سمجھنا ہے کہ حضرات صحابہ کرام واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین جو باہم تعلقات اور آپس میں وابستگی ہے یا اگر ان کے باہمی اختلاف کی کوئی نہج ہے اس بارے میں ہمارا موقف کیا ہے؟
پہلی بات یاد رکھیں! ہمارا موقف کوئی ہمارا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ وہی مؤقف ہے جو خود حضرات صحابہ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپس میں ہے،اسی کی ہم دعوت دیتے ہیں اور اسی کا پرچار کرتے ہیں اور صحابہ کرام اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین تعلق ، وابستگی، مودت اور اخوت
بھرپورقائم تھی ۔
لیکن وائے افسوس ۔۔۔!کہ بعض دشمنوں نے (یا یوں کہہ لیجئے کہ شیطان کے پھندے میں پھنسنے والوں نے) پوری تگ و دو ،کوشش کی کہ ان کے مابین اختلاف ، نزاع ثابت کیا جائے اصل بات یہ ہے کہ ان کی دال روٹی چلتی ہی اسی مسئلے پر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جتنا صحابہ کرام اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین اختلاف ثابت کر دیا جائے اتنی ہی ہماری کامیابی ہے لیکن یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔
صحابہ کرام کے متعلق مشہور دو نظریےاور اہلحدیث کا مؤقف :
بنیادی طور پر آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات جان لیں کہ صحابہ کرام کے بارے میں کچھ وہ لوگ ہیں جو اہل بیت کے ساتھ ان کے جو حقوق ہیں اس کے مطابق اپنی فکر نہیں رکھتےجنہیں “ناصبی” کہا جاتا ہے ۔
کچھ وہ لوگ ہیں جو صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان منافرت اور مخاصمت ثابت کرنے کی کوشش میں ہمیشہ مصروف رہے ہیں اور آج بھی لگے ہوئے ہیں انہیں “رافضی” کہا جاتا ہے۔
ہم اللہ کے فضل و کرم سے دونوں انتہاؤں سے بری ہیں ہمارے دلوں میں تمام اہل بیت رضی اللہ عنھم کے ساتھ اسی طرح محبت اور پیار ہے جس طرح صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنھم کے مابین پیار تھا ۔
اہل بیت کون ہیں؟
01:اہلبیت گھر والے ہوتے ہیں
یہ بات جان لیں کہ اہل بیت وہ ہیں جو نبی ﷺ کے گھر میں پلےاور رہے ہیں ان سے مراد ازواج مطہرات بھی ہیں آپ کے گھر میں پرورش پانے والے وہ خواہ حضرت فاطمہ ہوں یا حضرت علی ہوں ،حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنھم ہوں وہ بھی نبی کریمﷺکے اہل بیت ہیں۔ہم عمومالفظ بولتے ہیں اہل مکہ ،اھلِ مدینہ اہل پاکستان اس کے معنی ہوتے ہیں مکہ مکرمہ،مدینہ طیبہ ،پاکستان میں رہنے والے اسی طرح اہل بیت سے مراد گھر میں رہنے والے ہیں نبی کریمﷺجس گھر میں رہتے تھے اور ان کے ہمراہ جتنے بھی لوگ رہتے تھے وہ سب اہل بیت میں ہیں کوئی بھی ان میں سے خارج نہیں ہیں جیسا کہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں سورہ طٰہٰ میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے”وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا کہ اپنے اہل خانہ کو نماز کی تلقین کیجیے۔ یہاں اہل سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ کے ساتھ وابستہ ،آپ کے گھر میں تھے اور آپ کی اولاد میں تھے۔
02:اہلبیت اپنے بڑے کے دین پرقائم لوگ ہوتے ہیں
اور امام راغبؒ نے کہا ہے :کہ اہل بیت وہ سب ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے گھر میں پرورش پائی اور ان کو بھی اہل بیت کہا جاتا ہے جو اپنے بڑے کے دین کے مطابق ہو ں حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ ذوالجلال سے دعا کی تھی ((وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ ))نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا : میرا بیٹا تو میرے اہل سے تھا تو اللہ ذوالجلال نے جواب دیا:”قَالَ رَبُّكَ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ الْجَاهِلِينَ” : ’’نوح وہ تیرے اہل سے نہیں تھا ،حالانکہ وہ بیٹا تھا گھر پرورش پائی ہے لیکن اللہ ذوالجلال نے فرمایا وہ تیرا اہل نہیں ہے اس لئے کہ وہ تیرے دین پر نہیں۔
03:اہلبیت سے مراد بیویاں ہیں
قرآن مجید میں بہت سے مقام پر “اہل” کا اطلاق بیوی پر اور گھر والوں پر ہوا ہے۔ جس وقت اللہ رب العزت نے فرشتوں کے ذریعے حضرت سارہ علیہا السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تقریبا سو سال کی عمر میں بیٹے کی بشارت دی ہے تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اس بڑھاپے میں یہ کیسے ہو سکتا ہے تو فرشتوں نے کہا تھا :”قَالَ أَتَعَجَّبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ”
تو یہاں بھی حضرت سارہ کے تعجب پر اللہ سبحانہ و تعالی کے فرشتوں نے یہی بات فرمائی کہ اے اہلِ بیت: کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو؟
تو یہاں اہل بیت سے مراد حضرت سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ ہیں۔ اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کا معروف واقعہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہےحضرت موسیٰ علیہ السلام کے مدین پہنچنے کے بعد جو بکریاں چرانے کا معاہدہ ہوا اور وہ مدت مکمل ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا “فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَىٰ الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًاجب مدت پوری ہو گئی تو موسی علیہ السلام اپنی اہل کو لے کے چل نکلے۔ اب تیسرا تو کوئی شخص ہے ہی نہیں یہاں اہل سے مراد بیوی ہے ۔وہاں سے چلتے ہیں تو راستے میں سردی کی وجہ سے ٹھٹھر جاتےہیں پھر بیوی سے کہتے ہیں قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي ءَانَسْتُ نَارًۭا لَّعَلِّى ءَاتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى ٱلْبُرْنِسِهِۦ هُدًۭى” یہاں بھی اہل سے مراد بیوی ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ابحاث اہلبیت میں ازواج ہیں یا نہیں ہیں یہ خواہ مخواہ کی بحثیں ہیں.اور کچھ بد نصیب تو ایسے ہیں جو ایسی نصوص کے باوجود ازواج مطہرات کو اہل بیت میں شامل نہیں کرتے لیکن ہم تو کسی کو خارج نہیں کرتے۔ ان تمام کو اہل بیت میں شامل سمجھتے ہیں
جاری ہے

Scroll to Top